اُس دلبرِ یکتا سے سوغات مثالی ہے
ہیں جانِ جہاں وہ ہی ہر بات نرالی ہے
آسان ہوئی اُن سے منزل ہے جو انساں کی
منشور ہے جو اُن کا ہر عیب سے خالی ہے
سرکار کے نغمے ہیں معمول بنے جس کے
کیا خوب لگے عادت جو اُس نے بنا لی ہے
دلدار کے گلشن میں ہر آن بہاریں ہیں
پُر لُطف فضائیں ہیں منظر بھی جمالی ہے
امداد کریں گے وہ میدان میں محشر کے
سرکار نے یہ امت دوزح سے بچالی ہے
آتی ہے صدا اب بھی جب غور سے سنتے ہیں
پیغام ہے جو اس میں آذانِ بلالی ہے
ہر باغ فروزاں ہے سرکار کے نغموں سے
بن ذکرِ نبی ہمدم ہر رات ہی کالی ہے
محمود سخی داتا فیاض ہیں ہستی میں
شاداب رہی جن سے یہ آس کی ڈالی ہے

0
3