نگاہِ کرم ہو نبی کملی والے
اے دلدارِ یزداں خلق میں نرالے
ہو کافور ظلمت ملے آشتی بھی
سکونِ دہر اے دلوں کے اُجالے
میں بھٹکا ہوا ہوں گراں مشکلیں ہیں
پڑے جان کے ہیں شہا مجھ کو لالے
غریبِ وطن ہوں امیدیں ہیں تجھ سے
مجھے کون تیرے سوا خیر ڈالے
شکستہ ہے ناؤ بھنور گہرے گہرے
پیا بادبانِ ارم میں بٹھا لے
کرم ہو نبی جی ہے فریاد میری
کرے دل یہ زاری سنیں اس کے نالے
کٹھن ہیں کریمی جدائی میں گھڑیاں
سخی در پہ داتا حزیں کو بلا لے
رہوں تیرے در پر کرم ہو نبی جی
یہ شیطان ڈاکے مقدر پہ ڈالے
حزیں امتی ہے یہ محمود عاصی
حسیں ذات تیری اسے بھی سنبھالے

0
1