یاد ہے ہر گلی فرہاد ہوا کرتے تھے
عشق کے مارے تو برباد ہوا کرتے تھے
موت دھندا ہے جو صدیوں سے چلا آتا ہے
یاد ہے شہر میں جلاد ہوا کرتے تھے
بات سچ ہے کہ بہت دکھ ہے فضا میں اب کے
لوگ ہر دور میں نا شاد ہوا کرتے تھے
راوی کیا چین لکھے اس کا قلم ٹوٹ گیا
یہاں پہلے بھی تو بیداد ہوا کرتے تھے
روز سامانِ عقوبت نیا بکتا ہے یہاں
جبر ہر طرح کے ایجاد ہوا کرتے تھے
شاہدؔ آج اپنی زمینوں پہ ہی ہاری ہم لوگ
اپنے اجداد کب آزاد ہوا کرتے تھے

14