اب کہاں اختیار میں دل ہے
حسرتِ نو بہار میں دل ہے
ان سے امید اب وفا کی نہیں
ان کے قول و قرار میں دل ہے
وعدہ کر کے کبھی نہ آئیں گے
بس یونہی انتظار میں دل ہے
ہم تو اب ہو گئے رہین ستم
آئینِ بزمِ یار میں دل ہے
مجھ کو خود کو تباہ کرنا ہے
لطفِ ستمِ شعار میں دل ہے
عمر گذری ہے سب جدائی میں
اب تو اپنا وصال میں دل ہے
اب مجھے زندگی سمجھ آئی
اب فقط کاروبار میں دل ہے

0
26