اب کہاں اختیار میں دل ہے |
حسرتِ نو بہار میں دل ہے |
ان سے امید اب وفا کی نہیں |
ان کے قول و قرار میں دل ہے |
وعدہ کر کے کبھی نہ آئیں گے |
بس یونہی انتظار میں دل ہے |
ہم تو اب ہو گئے رہین ستم |
آئینِ بزمِ یار میں دل ہے |
مجھ کو خود کو تباہ کرنا ہے |
لطفِ ستمِ شعار میں دل ہے |
عمر گذری ہے سب جدائی میں |
اب تو اپنا وصال میں دل ہے |
اب مجھے زندگی سمجھ آئی |
اب فقط کاروبار میں دل ہے |
معلومات