دن کو بچھڑے ہوئے غم رات میں آ جاتے ہیں
درد اجداد کے بھی ساتھ میں آ جاتے ہیں
دور رہنے کی قسم ہر دفعہ ٹوٹی ہم سے
ایسے مجبور کہ جذبات میں آ جاتے ہیں
جوش آتا ہے کہ کر جائیں بڑا کام کوئی
جلد ہی لوٹ کے اوقات میں آ جاتے ہیں
شہر والوں نے ستانے میں تو حد ہی کر دی
چھوڑ کر شہر کو دیہات میں آ جاتے ہیں
لاکھ کوشش کروں چھپتے نہیں مجھ سے شاہدؔ
شکوے اس سے مری ہر بات میں آ جاتے ہیں

2
36
ڈاکٹر صاحب بہت عمدہ
کمال کا کلام ہے

بہت شکریہ جناب

0