اسے جب بھی ملے موقع مجھے برباد کرتا ہے |
یہی کافی ہے کہ اب بھی مجھے وہ یاد کرتا ہے |
بہت دن سے زباں ساکت ہے اور پتھرا گئیں آنکھیں |
کروں کیا ہر گھڑی یہ دل مرا فریاد کرتا ہے |
جب عادت بے حسی پیدا کرے یہ درد سہنے کی |
طریقہ درد کا وہ پھر نیا ایجاد کرتا ہے |
میں زاغِ شب ہوں دن کی روشنی آنکھوں کو ڈستی ہے |
نجانے دن کو ہی صیاد کیوں آزاد کرتا ہے |
نہ جوئے شیر ناں ہی کوہ کن مجنوں نہ ویرانہ |
نیا دیکھیں گے کیا اس دور کا فرہاد کرتا ہے |
معلومات