ڈر ڈر کے زندگی کو یوں ناں ناگوار کر
کچھ ایسا کر کہ زندگی کو یادگار کر
زخموں سے روشنی کے لیے راہ گز بنا
تو پیار کر کے دل کو ابھی سے فگار کر
آدم کی سر کشی کا کیوں الزام اس کے سر
حوا کی بیٹیوں کا تو اب اعتبار کر
بیٹھا ہے ایک ذاغ مگر بولتا نہیں
دل مجھ سے کہہ رہا ہے ابھی انتظار کر
سقراطِ شہر جھول رہا ہے صلیب پر
خود کو تو حاہلوں میں یہاں اب شمار کر
چل میکدے کو لوٹ جا ساقی ہے منتظر
ہر ابر کو تو آج سے ابرِ بہار کر
کیسے سمجھ سکے گا جزا کی تو لذلتیں
دامن کو اپنے آج سے تو داغدار کر
یہ زندگی ہے بے وفا کب یہ دغا کرے
بس ایک بار زندگی ہے کھل کے پیار کر

0
35