واضح تھا اتنا زخم دکھانا نہیں پڑا
قصہ شکست کا بھی سنانا نہیں پڑا
جاتے سمے وہ گھر کو جلا کر چلا گیا
اجڑا دیار ہم کو بسانا نہیں پڑا
ایسا وہ حادثہ تھا کہ آواز چھن گئی
اس کو پلٹ کے پھر کبھی آنا نہیں پڑا
ایسے جلے کہ راکھ کا ہم ڈھیر ہو گئے
بکھرے کچھ اس طرح کہ اٹھانا نہیں پڑا
محظوظ ہو رہے تھے تماشا سمجھ کے سب
اچھا ہوا کسی کو بچانا نہیں پڑا
جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہے داستاں
اس عاشقی میں نام کمانا نہیں پڑا
شاہدؔ ہمیں حیات نے زندہ جلا دیا
رحلت کے وقت ہم کو جلانا نہیں پڑا

0
40