سوچنے میں عمر گزری ابتدا کیسے کروں
اس کو اپنے آپ میں میں مبتلا کیسے کروں
آرزو میری کرے کوشش رہی یہ عمر بھر
ہو گیا اب مبتلا تو انتہا کیسے کروں
وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی گلزار ہے
درد سے اپنے اسے میں آشنا کیسے کروں
مجھ کو تو نے زندگی اک غیر جانا ہر گھڑی
مجھ کو اب موقع ملا تجھ سے وفا کیسے کروں
مانگ کے لینا ہوا تو شاہ سے مانگوں گا میں
ہاتھ ہی اٹھتے نہیں شاہدؔ دعا کیسے کروں

0
6