کہنا چاہا تھا مگر اس سے کہا کچھ بھی نہیں
روز ہوتا ہے یہی اس میں نیا کچھ بھی نہیں
اتنی طاقت دی اُسے اُس نے گِنی ہیں سانسیں
اُس نے بدلے میں مگر مجھ کو دیا کچھ بھی نہیں
جی نہ پائے گا مرے بعد کہا تھا اس نے
ایک مدت ہوئی اُس کو تو ہوا کچھ بھی نہیں
مجھ سے گزری نہ گئی صرف گزرتے دیکھی
کیوں یہ کاتب نے کیا اس میں لکھا کچھ بھی نہیں
میں نے اِس پیار میں اک عمر گنوا دی شاہدؔ
ُاس کا اِس کھیل میں اب تک تو گیا کچھ بھی نہیں
ق
نہ کوئی دوست نہ ہمدم نہ ہی ساقی نہ شراب
اب مرے پاس لٹانے کو بچا کچھ بھی نہیں

0
5