ہوئے دردِ پنہاں عیاں کیسے کیسے
ملے ہم کو یاں راز داں کیسے کیسے
رگوں میں رواں خونِ خانہ بدوشی
قفس ہو گئے آشیاں کیسے کیسے
بیاباں میں تنہائیاں کھینچ لائیں
گزرنے لگے کارواں کیسے کیسے
مقدر میں ناکامیاں ہی لکھی تھیں
مقابل تھے آتش فشاں کیسے کیسے
سمجھتے رہے خود کو نائب خدا کا
اٹھائے ہیں بارِ گراں کیسے کیسے
ہمیں ہر گھڑی حشر کا سامنا تھا
جہاں میں دیے امتحاں کیسے کیسے

0
28