لوگ بس بات بنانے کے لیے نکلے ہیں
ہم پہ جگ کو وہ ہنسانے کے لیے نکلے ہیں
ہم تو سمجھے تھے کہ وہ آ کے تسلی دیں گے
یار و اغیار ستانے کے لیے نکلے ہیں
اپنے گھر میں جو لگی ہے وہ تو بجھنے سے رہی
شہر کی آک بجھانے کے لیے نکلے ہیں
آج افواہ سنی ہے کہ ہمی قتل ہوئے
ہم فقط لاش اٹھانے کے لیے نکلے ہیں
صبح جاتے تھے سرِ شام پلٹ آتے تھے
شہر اب چھوڑ کے جانے کے لیے نکلے ہیں
جن کے خط رکھ کے کہیں بھول گئے تھے شاہدؔ
ان کے خط آج رلانے کے لیے نکلے ہیں

0
28