خواب میں کرب ناک منظر تھا
ہاتھ میں آج اس کے پتھر تھا
مانگ لیتا تو جان دے دیتے
دل ہمارا بڑا سمندر تھا
ایک بھی پھول اُگ نہیں پایا
دل کا صحرا بہت ہی بنجر تھا
شہر میں جم غفیر لوگوں کا
ہر کسی پر فرعون کا سر تھا
زلزلے نے گرا دیا وہ بھی
شہر میں آخری مرا گھر تھا
زندگی یوں گزار دی شاہدؔ
گھر کے اندر تھا ناں میں باہر تھا
ق
آج جا کر حرم میں دیکھ لیا
ہر کوئی کب وہاں برابر تھا
زندگی میں نہ کچھ بھی کر پایا
کون سا میں کوئی سکندر تھا
کاش احساس کی کمی ہوتی
یاں مقابل دکھوں کا لشکر تھا

0
6