میری یادوں کی کلی دل میں چٹکتی ہو گی
کوئی تو شام مرے نام مہکتی ہو گی
کیوں میں یہ کہہ نہ سکا اس سے محبت ہے مجھے
مری آواز گلے میں ہی اٹکتی ہو گی
سوچتا ہوں کہ سبب ترکِ تعلق کیا تھا
کوئی تو چیز افق پار چمکتی ہو گی
اپنے ہمزاد سے بچھڑا تھا جوانی میں یہیں
انہیں گلیوں میں مری روح بھٹکتی ہو گی
مجھ سے ملنا ہے تو آؤ میں ملاؤں خود سے
کسی کونے میں مری لاش لٹکتی ہو گی
آج تک بھول نہ پایا میں یہ گلیاں شاہدؔ
بھولی بسری ہوئی اک یاد دہکتی ہو گی

33