اک ادھورا سا خواب لے بیٹھا
پھر جو آیا عذاب لے بیٹھا
اُس سے پوچھا کوئی گلہ شکوہ
وہ گِلوں کی کتاب لے بیٹھا
نیست کر دی یہ زندگی اس نے
کیا کہوں انتخاب لے بیٹھا
کتنی جی لی ہے کتنی باقی ہے
مجھ کو یہ ہی حساب لے بیٹھا
فتویٰ جب سے سنا حرام ہے یہ
میں اسی دن شراب لے بیٹھا
جرم یہ تھا کہ بے گنہ نکلے
اس پہ پھر احتساب لے بیٹھا
میرے ہاتھوں سے چھٹ گئی جنت
مجھ کو میرا جواب لے بیٹھا

0
18