یقین پیار میں نہ تھا میں خود سے بھی خفا رہا |
میں کچھ نہ کر سکا یہاں نجانے کیوں ڈرا رہا |
ٹھہر سکا نہ کوئی یاں پہ آندھیوں کی راہ میں |
مگر میں اس کے پاؤں میں زمین پر پڑا رہا |
سنا تو تھا انا کی جنگ میں ہارنا ہی ہے لکھا |
نجانے کیوں پھر آج تک خودی پہ میں اڑا رہا |
بچھڑتے وقت کہہ رہا تھا وقت ہی طبیب ہے |
رکا نہیں یہ وقت بھی یہ زخم بھی ہرا رہا |
جو گر گیا زمانہ اس کو روند کر نکل گیا |
میں چوٹ کھا کے پھر بھی اپنے پاؤں پر کھڑا رہا |
معلومات