اک پل کا بھی مجھے وہ سہارا نہ دے سکا
اک سانس چاہیے تھا ادھارا نہ دے سکا
دامن میں کہکشائیں سمیٹے ہوئے تھا وہ
مجھ کو وہ ایک ٹوٹتا تارا نہ دے سکا
طغیانیوں سے مجھ کو بچایا نجانے کیوں
ساحل پہ لا کہ مجھ کو کنارا نہ دے سکا
سیلِ بلا کا سامنا کرتا میں کس طرح
تنکے کا بھی مجھے وہ سہارا نہ دے سکا
ٹوٹا کچھ اس طرح کہ میں پھر جڑ نہیں سکا
میں اپنا آپ پھر کبھی سارا نہ دے سکا

0
48