اک اور سال زندگی کا اب گزر گیا |
میں اس سفر پہ دائمی آنکھوں سے تر گیا |
صحرا نورد میں بنا بس بھوک کے لیے |
یہ پیٹ تو بھرا نہیں پر میرا سر گیا |
اب حال یہ ہے خود کو بھی پہچانتا نہیں |
دیکھا جو آج آئینہ میں خود سے ڈر گیا |
اک اور سال زندگی کا اب گزر گیا |
میں اس سفر پہ دائمی آنکھوں سے تر گیا |
صحرا نورد میں بنا بس بھوک کے لیے |
یہ پیٹ تو بھرا نہیں پر میرا سر گیا |
اب حال یہ ہے خود کو بھی پہچانتا نہیں |
دیکھا جو آج آئینہ میں خود سے ڈر گیا |
معلومات