اک اور سال زندگی کا اب گزر گیا
میں اس سفر پہ دائمی اشکوں سے تر گیا
اب حال یہ ہے خود کو بھی پہچانتا نہیں
دیکھا جو آج آئینہ میں خود سے ڈر گیا
صحرا نورد میں بنا بس بھوک کے لیے
یہ پیٹ تو بھرا نہیں پر میرا سر گیا
میرا تمام خون پسینے میں بہہ گیا
دل میرا خون کی جگہ زخموں سے بھر گیا
جس گھر کو میں بچانے کو نکلا تھا چُھٹ گیا
اب یاد بھی نہیں رہا کب اپنے گھر گیا
دن رات ایک کر کے بنایا تھا گھونسلا
اک آندھیِ حیات سے سب کچھ بکھر گیا
شاہدؔ عجیب میں نے گذاری یہ زندگی
پیدا ہوا تھا آج کے دن آج مر گیا

0
662