آتش کدے کی ٹھنڈی اب راکھ ہو گئے ہیں
پتھر تھے ہم پگھل کے اب خاک ہو گئے ہیں
ڈوبے تو ہم کہاں پر بس چند آنسوؤں میں
اندھے کنویں میں گر کے تیراک ہو گئے ہیں
حالات کوزہ گر تھے اور چاک تھا بھنور میں
کچھ خاص بن نہ پائے چالاک ہو گئے ہیں
سفاک لشکری تھے آہن کا دل ہمارا
اس عشق میں تو اب ہم نمناک ہو گئے ہیں
شاہدؔ شرر تھے ہم تو مٹی تھی ضد ہماری
اب بجھ کے مٹیوں کی خوراک ہو گئے ہیں

0
25