نکلے گا بے وفا وہ ، یہ امکان تو نہ تھا
میں سوگ میں تھا مان لو حیران تو نہ تھا
جیسے پہیلیوں میں چھپی ہوں پہیلیاں
اس کو سمجھنا اس قدر آسان تو نہ تھا
یادیں ہر ایک چیز سے لپٹی تھیں اس طرح
اس کے بغیر گھر مرا ویران تو نہ تھا
وہ کیا گیا کہ شہر میں ہم اجنبی ہوئے
وہ ہمسفر تو تھا مری پہچان تو نہ تھا
سب تلخیاں حیات کی پگڈنڈیوں پہ تھیں
رستہ جو قبر تک تھا وہ سنسان تو نہ تھا

1
22
یادیں ہر ایک چیز سے لپٹی تھیں اس طرح
اس کے بغیر گھر مرا ویران تو نہ تھا

واہ۔۔۔ اعلیٰ