جینے نہیں دیا ہمیں مرنے نہیں دیا
اس زندگی نے کھل کے بکھرنے نہیں دیا
اک دائمی سے خوف میں زندہ رکھا گیا
حق کے لیے ہمیں کبھی لڑنے نہیں دیا
اک خواب تھا کہ کارِ نمایاں کریں کوئی
کارِ خفیف بھی کوئی کرنے نہیں دیا
ساحل پہ انتظار میں یہ عمر کٹ گئی
ہم کو سمندروں میں اترنے نہیں دیا
ہم تو فقیرِ شہر تھے اپنی بِسات کیا
ہم کو تو اس گلی سے گزرنے نہیں دیا
ایسا نہ ہو کہ راس یہ آ جائے زندگی
زخموں کو اس لیے کبھی بھرنے نہیں دیا

0
35