ہر سال ہماری لغت سے |
کچھ لفظ نکالے جاتے ہیں، |
اور ان کی جگہ کچھ لفظ نئے |
لغت میں ڈالے جاتے ہیں۔ |
اس بار جو خارج لفظ ہوئے، |
اُن میں ایک لفظ “محبت” تھا۔ |
اک وقت تھا—لوگ یہ کہتے تھے: |
ہیرے ہیں سب الفاظ اگر، |
تو لفظ “محبت” کوہِ نور۔ |
حیرت میں ڈالیں لفظ اگر— |
تو لفظ “محبت” تاج محل۔ |
رشتوں کی کسوٹی پر پرکھیں— |
تو لفظ “محبت” ماں کی طرح۔ |
گر لفظ ترازو میں تولیں— |
تو ساری لغت ایک طرف، |
اور لفظ “محبت” ایک طرف۔ |
اب وقت نہیں وہ وقت نہیں رہا— |
اک وقت تھا جینا مرنا بھی |
اک جشن کی مانند لگتا تھا |
جب اٹھتی تھی اک لاش یہاں |
سب کاندھا دینے دوڑتے تھے |
اب لفظ “محبت” فوت ہوا |
کوئی سوگ نہیں کوئی بین نہیں |
اک لاش پڑی ہے گلیوں میں |
سب لوگ یہاں مصروف بہت |
پاؤں میں روند کے ہر صبح |
روٹی کی کھوج میں جاتے ہیں |
یہ لفظ ہوا بےجان بہت۔ |
اس لفظ نے حرمت کھو دی ہے۔ |
اس لفظ نے طاقت کھو دی ہے |
جو دل پر چوٹ لگاتی تھی |
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اب |
محبوب سے اپنے کون کہے؟ |
بچے کے ماتھے پر بوسہ |
دیتے ہوئے اس سے کون کہے؟ |
کون بہن کے سر پر ہاتھ رکھے |
اور سرگوشی سے لفظ کہے؟ |
کون نزع کے عالم میں بوڑھے |
ماں باپ کے تھامے ہاتھ یہاں |
اور دھیمے سر یہ لفظ کہے؟ |
یہ نسل محبت بھول گئی۔ |
اک مدت سے اب یاد نہیں— |
یہ کس نے کہا تھا، شاہدؔ جی: |
“ہاں، مجھ کو ‘محبت’ ہے تم سے۔” |
لب زندہ ہیں، معنی مُردہ ہیں - |
یہ کیسی بولی بولتے ہیں؟ |
طوطے کی طرح اب لوگ یہاں |
بس “لو یو” ، “لو یو” بولتے ہیں۔ |
اس سال جب اپنی لغت سے |
جس وقت “محبت” حذف ہوا— |
لغت کی ہچکی سب نے سنی، |
لغت سے روح پرواز ہوئی۔ |
لغت بھی اب، لوگوں کی طرح، |
ایک زندہ لاش سی لگتی ہے۔ |
معلومات