تیر سارے کہ سارے کماں کھا گئی |
اپنی کشتی یہاں بادباں کھا گئی |
تم یہ کہتے ہو کیوں ہم کھلے ہی نہیں |
ہم کو کھلنے سے پہلے خزاں کھا گئی |
تم یہ پوچھو گے تنہائیاں کس لیے |
کیا کہیں ہم یہ رشتے زباں کھا گئی |
ہم کو پیری نے مارا ہے کیوں غم کریں |
زندگی تو یہاں پر جواں کھا گئی |
جس نے پتھر تراشے وہ آباد ہے |
شہر کے ,بھوک شیشہ گراں کھا گئی |
زندگی ہم سے شاہدؔ گزر ناں سکی |
اور لوگوں کو یہ ناگہاں کھا گئی |
ق |
یہ قسم کھا کے ہم نے کہا پیار ہے |
اور پھر وہ بھی جھوٹا قراں کھا گئی |
معلومات