تیر سارے کہ سارے کماں کھا گئی
اپنی کشتی یہاں بادباں کھا گئی
تم یہ کہتے ہو کیوں ہم کھلے ہی نہیں
ہم کو کھلنے سے پہلے خزاں کھا گئی
تم یہ پوچھو گے تنہائیاں کس لیے
کیا کہیں ہم یہ رشتے زباں کھا گئی
ہم کو پیری نے مارا ہے کیوں غم کریں
زندگی تو یہاں پر جواں کھا گئی
جس نے پتھر تراشے وہ آباد ہے
شہر کے ,بھوک شیشہ گراں کھا گئی
زندگی ہم سے شاہدؔ گزر ناں سکی
اور لوگوں کو یہ ناگہاں کھا گئی
ق
یہ قسم کھا کے ہم نے کہا پیار ہے
اور پھر وہ بھی جھوٹا قراں کھا گئی

0
21