| دل میں کسی کے درد بسائے نہ پھر کبھی |
| ہم نے کسی کے ناز اٹھائے نہ پھر کبھی |
| اب پڑ گئیں ہیں گوشہ نشینی کی عادتیں |
| قصے تمہارے بعد سنائے نہ پھر کبھی |
| آنگن میں ہر طرف ہے ابھی کیکروں کا راج |
| موسم کے پھول ہم نے لگائے نہ پھر کبھی |
| تم کیا گئے کہ اپنی انا بھی چلی گئی |
| آنسو ٹپک پڑے تو چھپائے نہ پھر کبھی |
| شاہدؔ گلی بھی اپنی یوں ویران ہو گئی |
| آواز بھی فقیر کی آئے نہ پھر کبھی |
معلومات