دل میں کسی کے درد بسائے نہ پھر کبھی
ہم نے کسی کے ناز اٹھائے نہ پھر کبھی
اب پڑ گئیں ہیں گوشہ نشینی کی عادتیں
قصے تمہارے بعد سنائے نہ پھر کبھی
آنگن میں ہر طرف ہے ابھی کیکروں کا راج
موسم کے پھول ہم نے لگائے نہ پھر کبھی
تم کیا گئے کہ اپنی انا بھی چلی گئی
آنسو ٹپک پڑے تو چھپائے نہ پھر کبھی
شاہدؔ گلی بھی اپنی یوں ویران ہو گئی
آواز بھی فقیر کی آئے نہ پھر کبھی

0
23