سوچ کا وہ دائرہ کافی مرا پھیلا گئی
جاتے جاتے بات کچھ ایسی مجھے سمجھا گئی
آخری موقع ملا تھا رائیگاں وہ بھی گیا
آگے بڑھ کر ہاتھ ناں پکڑا گیا شرما گئی
آنکھ اس کی میرے اندر جھانک سکتی تھی مگر
شکل سے میری نجانے کیوں وہ دھوکا کھا گئی
باری باری کر کے تو گر پھینکتی تو بات تھی
زندگی تُو پتھروں کی بارشیں برسا گئی
دن اسی کوشش میں گزرا خود کو باہم رکھ سکوں
رات جب آئی ہمیشہ کی طرح بکھرا گئی
ایک مدت بعد کیسے یاد اس کی آ گئی
یاد اُس کی اِس دلِ ناشاد کو بہلا گئی

23