وہ کون لوگ تھے جن کو یہ زخم بھرنا تھا
خوشی کی رُت میں پھر اس روح میں اترنا تھا
کنول کا پھول تھے ہم کو کہاں تھا یہ معلوم
کہ جوہڑوں میں ہی رہ کر ہمیں نکھرنا تھا
سمجھ رہے تھے کہ ہم بار بار آئیں گے
پتہ چلا کہ بس اک بار ہی گزرنا تھا
مثال کیوں ہمیں سورج کی دی گئی آخر
یہاں پہ ڈوب کے پھر کون سا ابھرنا تھا
بہت جتن کیے پر جھوٹ بول ناں پائے
یہی تو کام تھا جو ہم کو یاں پہ کرنا تھا
جو جھک گئے تھے وہ گردن بچا کے لے آئے
ہمیں یہ کون بتاتا کہ شاہ سے ڈرنا تھا
ہمیں طلب کبھی نمرود کی ہوئی ہی نہیں
خود اپنی آگ میں خود سے ہمیں اترنا تھا
وہ وعدہ کر کے گئے لوٹ کر نہیں آئے
انہیں خبر تھی یہ شاہدؔ ہمیں اجڑنا تھا

0
28