خواہش کے مچلنے میں ابھی وقت لگے گا
اس دل کے بہلنے میں ابھی وقت لگے گا
آواز مری سن کے پلٹتا نہیں کوئی
لہجے کو بدلنے میں ابھی وقت لگے گا
ویران محلے میں قدم رکھ تو دیا ہے
یادوں کے سلگنے میں ابھی وقت لگے گا
جب سے وہ گیا سانس گلے میں ہی رکی ہے
اس سانس کے چلنے میں ابھی وقت لگے گا
حالات نے بنیاد ہلا دی مرے گھر کی
دیوار سنبھلنے میں ابھی وقت لگے گا
یہ رات بتاتی ہے کہ دائم ہی رہے گی
سورج کے نکلنے میں ابھی وقت لگے گا
ترتیب لکیروں کو ابھی دے نہیں پایا
تصویر میں ڈھلنے میں ابھی وقت لگے گا
شاہدؔ یہ حقیقت بھی سمجھ جائے گی دنیا
پر سوچ بدلنے میں ابھی وقت لگے گا

0
1
12
بہت عمدہ