Circle Image

Shahab Ahmad

@Shahaba

غزل
محبت سے شناسا کر کے تنہا چھوڑ مت جانا
اجالے بھر کے جیون میں اندھیرا چھوڑ مت جانا
تمھارے ساتھ مل کر میں زمانے بھر سے لڑ جاؤں
مگر جینے نہیں دے گا زمانہ - چھوڑ مت جانا
یہاں انسان کے بہروپ میں کچھ بھیڑیے بھی ہیں

0
2
غزل
محبت اِک حکایت ہے
محبت اِک حقیقت ہے
محبت ہے تو رحمت ہے
محبت خوب صورت ہے
ہوس سے پاک و پاکیزە

0
9
غزل
عبادت کی طرح سمجھی محبت خُوب کی ہم نے
محبت کی لڑائی بھی محبت سے لڑی ہم نے
کبھی افراط دولت کا نہیں دیکھا مگر ساتھی
تمھیں ہونے نہیں دی ہے محبت کی کمی ہم نے
مری تنہائیاں آباد ہیں اک بزم کی صورت

12
غزل
برف کے پگھلنے تک منتظر رہوں گا میں
کونپلیں نکلنے تک منتظر رہوں گا میں
سردیوں کے موسم کی صبر آزما شب میں
روشنی نکلنے تک منتظر رہوں گا میں
بارشوں سے مٹی میں زندگی نمو پائے

0
16
غزل
پیار ہو جائے تو ہر بات کے لطف آتے ہیں
ہجر کی شب ہو ۔ ملاقات کے لطف آتے ہیں
کیسی لگتی ہوں میں؟ ہر روز سنور کر پوچھو
ایسے معصوم سوالات کے لطف آتے ہیں
آپ کے قرب کے شعلے جو میسر ہیں ہمیں

0
19
غزل ( دو گانا )
اُس رَوز مَسرت سے ہم جاں سے قضا ہوں گے
جِس رَوز ترے وعدے اے جان وفا ہوں گے
سو بار مناؤں گی، سو بار خفا ہوں گے
مر جاؤں نہ اُف الّٰلہ گر آپ جدا ہوں گے
نخریلی سجنی کے ہر ناز پہ دل قرباں

0
17
غزل
عہد جھوٹے کیا کرو کم کم
دَرد مِیٹھے دِیا کرو کم کم
دن قیامت سے تم نہیں ڈرتیں؟
یوں قیامت بپا کرو کم کم
بِن تُمھارے یہ پَل نہیں کٹتے

0
32
غزل
پَگلا گیا ہے دِل اِسے دِلدار چاہئے
سَر پھوڑنے کے واسطے دیوار چاہئے
چھانی ہزار منزلیں، تسکیں نہیں ہوئی
جُوشِ قَدم کو راستہ دُشوار چاہئے
حق بات پر مُصر رہیں، آسان تو نہیں

0
26
غزل
کٹھن مسافتیں آسان و مختصر کر دے
عجب نہیں کہ وہ دیوار ہی کو در کر دے
ہمیں تو شمعیں جلانی ہیں اپنے حصے کی
بعید کیا ہے سیہ رات ہی سحر کر دے
کمال شانِ کرم اور بے نیازی ہے

0
21
غزل
بے ہنر لوگ بھی با ہنر ہو گئے
ہم گرے پھر نہ سنبھلے صفر ہو گئے
بھیک لیتے رہے ہم خودی کے عوض
آج غیروں کے دستِ نگر ہو گئے
بے خَطر جِن پہ کھیلے لڑکپن میں ہم

25
غزل
پُھول کے تذکرے، خَار کی داستاں
زندگانی ہے گُل زار کی داستاں
گُل حیا سے ہُوا شبنمی شبنمی
جب سُنی اَن کہی خار کی داستاں
وقت چُن چُن کے کردار دیتا گیا

0
33
غزل
آؤ مل کر جُت جائیں سب فرصت کے لمحات نہیں
اب کے برس آفت آئی ہے رومانی برسات نہیں
لاکھوں کنبے ڈوب گئے ہیں کچھ معمولی بات نہیں
ہمت کوشش ترک کریں ہم ایسے بھی حالات نہیں
برسوں کی غفلت کے کارن طوفاں برپا ہوتا ہے

0
67
غزل
مصاحب غیر کا بنتا ہے کیوں بیکار جانے دے
نہ اپنی قوم سے ہو بر سرِ پیکار جانے دے
سپاہی کو نہیں زیبا کرے وہ غیر سے سازش
سہولت سے تُو بن جائے سہولت کار جانے دے
لبادہ اوڑھ لو کوئی برہنہ دِکھ رہے ہو تم

36
غزل
سبب خرابیِ حالات کا ہے کیا سمجھیں
شہاب آؤ گریباں میں جھانک کر دیکھیں
نہیں ہے فکر کسی قائدِ مدبّر کو
بھنور میں ڈوب رہے ہیں تو کس طرح نکلیں
مثال میرے وطن کی ہے اُس عمارت کی

0
47
غزل
لٹا چکا ہے تُو اپنا وقار جانے دے
تُو بِک چکا ہے مرے جاں نثار جانے دے
سپاہ کو نہیں زیبا کہ وہ کریں سازش
سجا نہ خون سے یہ سبزہ زار جانے دے
ہزار نسلوں سے تیرے غلام ہیں گرچہ

3
65
غزل
تب دوریوں کے موسم تھے ہجرتوں نے مارا
اب قربتیں ہیں حاصل دِل داریوں نے مارا
سب ٹھیک ٹھاک تھا تو کیوں عاشقی کی سوجھی
اس نا بکار دل کو سر مستیوں نے مارا
اسباب سب خوشی کا زادِ سفر میں باندھا

0
55
غزل
تماش بین کھڑے ہیں قطار میں سارے
لگی ہے آگ مرے کوئے یار میں سارے
نفیس دوست شب و روز ساتھ ہنستے تھے
الجھ گئے ہیں غمِ روزگار میں سارے
زمین و زر کی محبت میں مبتلا ہیں سب

0
55
غزل
دست و بازو پہ سجی شوخ حنا یاد رہی
کھل کھلا کر ترے ہنسنے کی ادا یاد رہی
بھول کر ہجر کے صدمے وہ اکیلی راتیں
ہنستی آنکھوں میں چمکتی وہ حیا یاد رہی
تلخ ماضی کے حوادث کو فراموش کیا

0
46
غزل
حسین چہرہ اگرچہ کتاب جیسا ہے
نظر میں لطف پرانی شراب جیسا ہے
روش روش پہ کھلیں باغ، پھول قرباں ہوں
ترا مزاج بھی بہتی چناب جیسا ہے
سیاہ رات کے دامن میں چاندنی بھر دے

0
47
غزل
چمک رہا ہے نیا آفتاب ٹہنی پر
عجب ادا سے کھلا ہے گلاب ٹہنی پر
پلٹ کے آپ نے دیکھا نقاب ٹہنی پر
مہک اٹھے ہیں خوشی سے گلاب ٹہنی پر
ہزار کانٹوں میں رہ کر خوشی خوشی جھومیں

0
71
غزل
قرار واقعہ دل کو قرار آ جائے
ترے قرار پہ گر اعتبار آ جائے
نفیس لب پہ شگفتہ نکھار آ جائے
بہار آنے سے پہلے بہار آ جائے
اسے سکون میسر نہیں سوا تیرے

0
45
غزل
حقیقت کھولتا کوئی نہیں ہے
کڑا سچ بولتا کوئی نہیں ہے
شکایت حبس کی کرتی ہے دنیا
دریچہ کھولتا کوئی نہیں ہے
چمن میں چار سو خاموشیاں ہیں

0
58
غزل
بے وجہ سب سے محبت ہے مصیبت کیا ہے
کون سمجھائے موئے دل کو حقیقت کیا ہے
ایسے لوگوں سے محبت کی ضرورت کیا ہے
جن کو یہ تک نہیں معلوم محبت کیا ہے
شوخ نظروں نے شرارت پہ اِسے اُکسایا

0
110
غزل
نفیس نوکِ قلم کا یہ شاخسانہ ہے
یہ زندگی بھی حقیقت نہیں فسانہ ہے
حدف حسین نگاہوں کا اصل ایماں ہے
یہ دل غریب فقط مشق کا نشانہ ہے
حیات آئی سمجھ میں تو اس قدر آئی

0
70
ستمبر کی بہار
دھول اڑتی تھی چار سو یکساں
زرد پتے تھے ہر طرف رقصاں
بیسواں روز تھا ستمبر کا
لیکن اک حجرۂ رفاقت میں
وصل کی اک حسیں مسہری پر

0
34
غزل
چشمِ خُوباں ایاغ کی صُورت
زلف دُودِ چِراغ کی صُورت
نرم و نازک وجود صندل سا
اک سراپا ہے باغ کی صُورت
لطف نازک نفیس ہونٹوں کے

0
83
غزل
آتش کدہ ہے گھر مرا اس گھر کا کیا کروں
شرمندگی سے جُھک گیا تو سر کا کیا کروں
لتھڑے پڑے ہیں خون میں ماؤں کے چاک دل
ہٹتا نہیں ہے آنکھ سے منظر کا کیا کروں
بچوں کا قتل عام - مذمّت تو فرض ہے

63
غزل
ساتھی ہو تو من کو سب کچھ اچھا اچھا لگتا ہے
ورنہ ہنستا بستا آنگن سونا سونا لگتا ہے
تیرا پیکر تازہ تازہ پھولوں کا گل دستہ ہے
چھو لوں جس پل اپنا تن من مہکا مہکا لگتا ہے
چاندی جیسا تیرا پیکر کپڑوں میں رَچ جاتا ہے

0
35
غزل
گزر چکے ہیں بہت ماہ و سال یہ سوچیں
قریب آمدِ روزِ وصال یہ سوچیں
بہار دیکھی ہے لطفِ خَزاں بھی دیکھیں گے
عروج ہے تو کبھی ہے زوال یہ سوچیں
اگر تو چھوڑ کے جانا ہے مال و زر پیچھے

0
112
غزل
مہکا مہکا ترا گلزارِ بدن یاد آیا
ہنستا ہنستا ترا اندازِ سخن یاد آیا
لب و رخسار کے گل اور مہکتے گیسو
شام آئی تو وہی رشکِ چمن یاد آیا
رکھ لیا غنچۂ گل توڑ کے رخساروں پر

0
65
غزل
دلیلیں تو وکیلوں سے بھی پائیدار دیتی ہے
مباحث جیت کر خود مجھ سے بازی ہار دیتی ہے
اِسی ایثار کے صدقے سے اُونچا ہے مِرا شِملا
مِری سجنی تو بازی جیت کر بھی ہار دیتی ہے
بہت مضبوط ہے عورت اسے کمزور مت سمجھیں

0
61
غزل
مسکراتے ہوئے لب دیکھ مچل جاتا دل
اک شکن ہوتی جبیں پر تو دہل جاتا دل
خوب سنجیدہ مزاجی سے محبت کی ہے
کوئی لونڈا تھا میں اُوباش بدل جاتا دل
گوشے گوشے پہ بدن اس نے ترے بوسے لئے

0
39
غزل
لوگ عالی نصیب ہوتے ہیں
جو دلوں کے قریب ہوتے ہیں
ڈھڑکنیں تیز ہوتی جاتی ہیں
آپ جتنا قریب ہوتے ہیں
جو نبھائیں خُلوص سے رشتے

0
95
غزل
بے سبب تم قیاس مت کرنا
اب طبیعت اداس مت کرنا
عشق کرنا حسین لوگوں سے
اک حسینہ کو خاص مت کرنا
چھیڑ کر ذکر بے وفاؤں کے

0
65
غزل
جھوٹی مطلب کی دنیا میں ڈھونڈے سے مخلص یار نہیں
پر ہم نے سچا پیار کیا اس سچ سے بھی انکار نہیں
انمول محبت کا گہنا بے مول کسی کو سونپ دیا
اک عاشق دل کا سودا تھا یہ دنیا کا بیوپار نہیں
ہم محفل محفل ہنستے ہیں پر تنہائی میں روتے ہیں

0
68
غزل
دل کو شعلے دکھا کے مت جاؤ
ایسے دامن چھڑا کے مت جاؤ
شوخ مہکی لطیف سانسوں سے
دل میں طوفاں اٹھا کے مت جاؤ
جذب کرنے دو لمس کی راحت

70
غزل
بچوں کے ساتھ صحن میں رونق لگی رہے
بچوں بغیر گھر میں اداسی بنی رہے
ماں باپ جھیلتے ہیں کڑی دھوپ کی تپش
بچوں کے سر پہ چھاؤں ہمیشہ گھنی رہے
سر جوڑ کے یوں بیٹھے ہیں ٹہنی پہ جیسے پھول

0
54
غزل
تری دلدار بانہوں کے حسیں گھیرے مری توبہ
تری ترچھی نگاہوں کے حسیں ڈورے مری توبہ
گھنی پلکیں، حسیں ابرو ، نفاست سے سجا کجرا
تری ہنستی ہوئی آنکھیں کہیں نغمے مری توبہ
مرے جذبات گرمائیں شرارت پر یہ اکسائیں

0
1
193
ملی نغمہ ۔ (غزل)
سب سے آگے سب سے اوّل میرا پاکستان رہے
مجھ کو دُنیا بھر سے افضل میرا پاکستان رہے
اس مٹی کا ذرہ ذرہ چاند ستاروں سے روشن ہو
جھلمل جھلمل جھلمل جھلمل میرا پاکستان رہے
کرکٹ کے میدان سے لے کر چاغی کوہستان تلک

0
131
غزل
رنج بھی راحت فزا ہیں نفس کی تسخیر میں
پھوٹتی ہیں راحتیں ہر حلقۂ زنجیر میں
اب مجھے ظلمات سے کوئی بھی اندیشہ نہیں
آئینہ دل کا مجلا ہے نئی تنویر میں
صرف اِک اسمِ محمدﷺ ہے وہ بس بعد اَز خدا

0
55
الوداع
میری لختِ جگر الوداع الوداع
میری نورِ نظر الوداع الوداع
میری نورِ بصر الوداع الوداع
میری بچی تجھے الوداع الوداع
ہو مبارک نئی زندگی کا سفر

3
75
غزل
یہ چند روزہ خزاں کا شمار ہے پیارے
قریب آمدِ فصلِ بہار ہے پیارے
بگڑ گئیں تو دل و جاں، جگر سے جاؤ گے
حسین آنکھوں کا کچھ اعتبار ہے پیارے
کسی نے دیکھا ہے چاہت بھری نگاہوں سے

60
غزل
جاوداں حسن کی علامت ہو
میرے گلشن کی اصل زینت ہو
میری نیندوں میں جو سحر پھونکے
تم اسی خواب کی حقیقت ہو
تیری قربت مری حسیں جنت

0
48
غزل
اوّل اوّل پیار میں وہ ہچکچانا یاد ہے
رفتہ رفتہ قربتوں کے لطف پانا یاد ہے
لمس کی لذت سے مجھ کو آشنا کرنا ترا
وہ یکایک ہاتھ چھو کر بھاگ جانا یاد ہے
پہلے لکھنا پیار کے نغمے، محبت کے خطوط

0
1
41
غزل
کھنکھناتی ہوئی مٹی سے اُٹھایا مجھ کو
آتشِ عشق میں پھر پُختہ بنایا مجھ کو
وَصف اِبلیس و ملَائک کے وَدیعت کر کے
اپنی تخلیق کا شہکار بتایا مجھ کو
ڈال کر اپنی تمنا مرے دل میں خود ہی

0
287
شکریہ ہمسفر
میرے جیون میں آئی تُو بن کے سَحَر
زندگی بن گئی روشنی کا سفر
مشکلیں زندگی میں رہیں جس قدر
ہاتھ مضبوط تھامے رہی عمر بھر
اے مری ہم نوا اے مری ہم سفر

0
129
بیٹیاں
بیٹیاں نور نظر دل کی صدا ہوتی ہیں
بیٹیاں مثل دعا مثل شفا ہوتی ہیں
تپتے صحراؤں میں یہ باد صَبا ہوتی ہیں
بیٹیاں باپ کی پَگھ ماں کی رِدا ہوتی ہیں
فخر کرتی ہیں وہ اَقدار پہ اپنے اعلٰی

74
نعت
عقل کو وجداں سکھایا آپﷺ کی تعلیم نے
آشنا رب سے کرایا آپﷺ کی تعلیم نے
لائقِ سجدہ نہیں رب کے سوا کوئی یہاں
بندگی کرنا سکھایا آپﷺ کی تعلیم نے
فاتحہ تا ناس اک دانش کدہ ہے القراں

0
77
ایبٹ آباد
ایبٹ آباد مرے شہر تو آباد رہے
دل تری یاد میں اکثر یونہی برباد رہے
تُو مرے شہر سدا شاد ہو آباد رہے
تُو مجھے پہلی محبت کی طرح یاد رہے
تری وادی کے مناظر ہیں زمانے سے جدا

0
51
غزل
حقائق پر نہ مبنی ہو تو چاہت مار دیتی ہے
عقیدت حد سے بڑھ جائے عقیدت مار دیتی ہے
کہیں تنہائیاں انسان کو جینے نہیں دیتیں
کہیں اچھے بھلے انساں کو صحبت مار دیتی ہے
کسی سے پیار کے بدلے کوئی امید مت باندھو

0
66
غزل
صبح آئے نہ کبھی یار بِنا شام آئے
میرے ہونٹوں پہ ہمہ وقت وہی نام آئے
مے بھی ہے چاند بھی پرجوش محبت بھی ہے
لطف آ جائے ہمیں وصل کا پیغام آئے
جان بھی مانگیں تو اک پل نہ تعامل برتوں

0
51
غزل
چھپی ہے دل میں ہزار لالچ، یونہی میں تم پر فدا نہیں ہوں
میں ایک بندہ ہوں بندہ پرور ، خدا نہ سمجھو خدا نہیں ہوں
مرے رفیقوں نے جوڑ رکھے ہیں بے وفائی کے سو فسانے
مرے رقیبوں سے پوچھ لو تم حقیقتاّ میں برا نہیں ہوں
اگر کبھی تم منانے آتے، مرے لبوں سے یہی تو سنتے

0
93
غزل
تُو میرا ساجن من ماہی، تُو ہی میرا دلدار پیّا
تُو میری اکھیوں کی ٹھنڈک، تُو دل کا چین قرار پیّا
میں ڈالر پیسے کیوں جوڑوں، یہ سونے چاندی کِس کارن
تُو میرا جیون سرمایہ، تُو میرا ہار سنگھار پیّا
تیری خوش نُودی کی خاطر، اک دن میں سو سو بار سجوں

57
غزل
قسم زیتون کی اقصی عقیدت ہے جنوں کر کے
نہ رکھ پائیں گے وہ محکوم تجھ کو قتل و خُوں کر کے
برُا دھبہ ہے اسرائیل کا ناموسِ انساں پر
جسے تسکین ملتی ہے ہمیشہ کُُشت و خُوں کر کے
نہایت ہی بُرا بزدل ہے گرچہ سُورما ہو گا

87
غزل
دوستو ۔ ریت پرانی یہ نبھاتے جاتے
آتے جاتے کبھی دو چار سناتے جاتے
جان پیاری ہے صنم آپ سے پیاری تو نہیں
ایک موہوم اشارے پہ لٹاتے جاتے
اب میں اغیار سے کیا دل کے فسانے چھیڑوں

127
غزل
گداز سینوں کی حدت کے لطف مت پوچھو
سیاہ زلف کی ظلمت کے لطف مت پوچھو
شہد ٹپکتا ہے کھلتی نفیس کلیوں سے
حسین لب کی حلاوت کے لطف مت پوچھو
حنا کے رنگ سے آراستہ ہے اک گلشن

0
76
غزل
مُسکراتے ہوئے پیغام وہ کیا دیتے ہیں
آنکھ مِلتی ہے تو شرما کے جُھکا دیتے ہیں
لاکھ مُشتاق نظر سے وہ تغافل برتیں
رَنگ رُخسار کے سچ بات بتا دیتے ہیں
روز آتے ہیں سرِ بام وہ سج کر لیکن

0
57
کبھی کبھی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
ترے بغیر مری زندگی ادھوری تھی
مجھے وفا سے محبت سے سرفراز کیا
مری حیات کو چاہت کی چاشنی بخشی
مرا نصیب درخشاں ترے ملن سے ہوا

204
غزل
چند اپنوں کی عنایات سے دل بوجھل ہے
آج پھر شورشِ جذبات سے دل بوجھل ہے
جانے کب صبحِ مسرت کا اجالا چمکے
ظلمتِ غم کی کڑی رات سے دل بوجھل ہے
بات کہنے کی وہ کہتے ہیں نہ میں کہتا ہوں

0
98
غزل
کہیں سروش صفت ہے کہیں پہ ہے شیطاں
کہ خیر و شر کا حسیں امتزاج ہے انساں
میں منتظر ہوں وہ اک روز بھول جائیں گے
مُکر چکے ہیں وہ سو بار کر کے یہ پیماں
یہ خاک و خون میں لتھڑے پڑے ہیں کیوں لاشے

0
54
غزل
چوڑیوں کا چھن چھنا چھن بولنا اچھا لگا
دست و بازو پر سجا رنگِ حنا اچھا لگا
برق چمکی اور سمٹ کر ایک قالب ہو گئے
چاہتوں کی بارشوں میں بھیگنا اچھا لگا
بعد بارش وہ ٹھٹھرنے کا بہانہ خوب تھا

0
161
غزل
جی چاہتا ہے آپ سے فرصت میں بات ہو
بیٹھوں قریب آپ کے قربت میں بات ہو
ہاتھوں میں ہاتھ تھام کہیں دور جا پڑیں
دنیا سے دُور پیار کی جنت میں بات ہو
بیٹھیں بدن سُکیڑ کے پھر ایک ساتھ ہم

0
71
غزل
شراب شیشے سے پینا خراب ہے پیارے
کوئی نظر سے پلائے ثواب ہے پیارے
ابھی جوانی ہے زورِ شباب ہے پیارے
ذرا سنبھل کے زمانہ خراب ہے پیارے
قدم قدم پہ سہانا فریب ہے دُنیا

0
82
غزل
میں ترے روپ کی تصویر بناتا کیسے
حسن تصویر کے پردے پہ سماتا کیسے
دیکھ کمبخت تری قید میں خوش ہے کتنا
دل ستمگر ترے چنگل سے چھڑاتا کیسے
میں نے ہر طور وفاؤں کی نگہبانی کی

0
47
غزل
حسیں رُخسار پہ رُخسار ٹیکوں اور سو جاؤں
تِرے مخمل بدن سے تن لپیٹوں اور سو جاؤں
دہکتی آگ سے شعلے لپکتا ہے بدن تیرا
چَلو آوٴ ذرا کچھ ہونٹ داغوں اور سو جاؤں
تِری قربت سبھی آزار جیون کے بھلا ڈالے

0
80
غزل
مُسکراتے ہوئے پیغام وہ کیا دیتے ہیں
آنکھ مِلتی ہے تو شرما کے جُھکا دیتے ہیں
لاکھ مُشتاق نظر سے وہ تغافل برتیں
رَنگ رُخسار کے سچ بات بتا دیتے ہیں
روز آتے ہیں سرِ بام وہ سج کر لیکن

0
113
غزل
مدوا تری آنکھوں سے چھلکتی ہے ابھی بھی
پُروا تری زلفوں سے الجھتی ہے ابھی بھی
شوخی ہے شرارت ہے وہ مستانہ نظر میں
بجلی کی طرح دل پہ لپکتی ہے ابھی بھی
بیٹھی ہو تو گل دستے کی مانند سمٹ کر

0
82
غزل
مجبور لوگ نقل مکانی میں چل پڑے
جب بن پڑا نہ راستہ پانی میں چل پڑے
ڈر سے ٹھٹک گیا تھا قلم کار کا قلم
کردار ِچند ایسے کہانی میں چل پڑے
سوچا نہ تھا کہ خیر سے جائیں گے ہم کہاں

0
60
غزل
شیخ ڈرنے کی عمر ہے اپنی
عشق کرنے کی عمر ہے اپنی
مل کے بچپن کے بچھڑے یاروں سے
رقص کرنے کی عمر ہے اپنی
خواب خاکوں میں خوب فرصت سے

0
80
غزل
کلیوں کے جیسی نازکی قربان جائیے
رنگیں لبوں کی چاشنی قربان جائیے
پھُولوں کِیطرح کِھل اُٹھیں نازک ہتھیلیاں
رنگِ حِنا کی دِلکشی قربان جائیے
چَھن چَھن کے جھانکنے لگی نازک لباس سے

0
151
غزل
محسوس کی ہے پیار کی حدت کبھی کبھی
نکلی ہے میرے دل کی بھی حسرت کبھی کبھی
جس جا وفا ملے اسے بڑھ کر سمیٹ لیں
ملتی ہے زندگی میں یہ دولت کبھی کبھی
ہم کو وہ التفات سے دیکھیں مگر کہاں

0
161
غزل
شوخ میرے ساتھ ہے پر دِل سنبھلتا ہی نہیں
مختصر سی رات ہے پر دِل سمجھتا ہی نہیں
وصل کی شب ہجر کے صدمے سناتا ہے کوئی
سامنے کی بات ہے پر دِل سمجھتا ہی نہیں
ناز نخرے سب دکھاتے ہیں توجہ کے عوض

0
113
غزل
نخرے سے جب وہ ہاتھ چُھڑائیں بھلی لگیں
چَھن چَھن یہ چُوڑیوں کی صَدائیں بھلی لگیں
دونوں جہان جن کی محبت میں لٹ گئے
اب بھی وہ شوخ شوخ نگاہیں بھلی لگیں
پُوچھو نہ چَشمِ یار کی جَادُو نِگاہیاں

2
174
غزل
نشتر پکڑ کے خار کو دل سے نکال دوں
سوچا خیالِ یار کو دل سے نکال دوں
دل کو مرے بدل دیا اک لالہ زار میں
اس بے مزہ بہار کو دل سے نکال دوں
آتش کدہ بنا دیا اس دل کا خاک داں

0
113
غزل
دوستوں میں جب باہم فاصلے نکلتے ہیں
آڑ میں چھپے دشمن سامنے نکلتے ہیں
زندگی کے عقدوں کا حل کوئی نہیں آساں
الجھنوں کے بیچوں بیچ راستے نکلتے ہیں
خوف جاہلیت کی طے شدہ علامت ہے

0
132
غزل
آنکھوں کے مے کدؤں کا بھی صدقہ اتارنا
کھلتے ہوئے لبوں کا بھی صدقہ اتارنا
خوشبو اُڑاتی پھرتی ہیں ہر سو فضاؤں میں
زُلفوں کی بدلیوں کا بھی صدقہ اتارنا
پھولوں سی سج رہی ہیں جو رنگِ حنائی میں

0
166
غزل
چندا کو دیکھ بام پہ پردہ گرا لیا
دانستہ ان کی یاد سے دامن چھڑا لیا
بڑھ چڑھ کے ہر رقیب نے پھر تبصرے کئے
موضوع شوخ نے ہمیں جب سے بنا لیا
آوارگی کا آپ نے طعنہ دیا ہمیں

0
82