| غزل |
| محبت سے شناسا کر کے تنہا چھوڑ مت جانا |
| اجالے بھر کے جیون میں اندھیرا چھوڑ مت جانا |
| تمھارے ساتھ مل کر میں زمانے بھر سے لڑ جاؤں |
| مگر جینے نہیں دے گا زمانہ - چھوڑ مت جانا |
| یہاں انسان کے بہروپ میں کچھ بھیڑیے بھی ہیں |
| یقیناً نوچ ڈالیں گے، اکیلا چھوڑ مت جانا |
| تمھیں معلوم تو ہے مرکزی کردار ہی تم ہو |
| ادھورا چھوڑ کر میرا فسانہ - چھوڑ مت جانا |
| قسم کھائی ہے تم نے ساتھ جینے اور مرنے کی |
| مری آغوش ہے تیرا سرہانہ - چھوڑ مت جانا |
| خزاں رت میں تمھیں برسات سے کتنی محبت تھی |
| ابھی موسم ہوا ہے عاشقانہ ۔ چھوڑ مت جانا |
| ہمیشہ دیر کر دیتے تھے تم ہر کام میں اکثر |
| تمھیں ججتی نہیں جلدی، اکیلا چھوڑ مت جانا |
| دَبا دینا سرہانے پر مرے دیوان غالب کا |
| لحد میں ڈال کر مجھ کو، اکیلا چھوڑ مت جانا |
| بہانہ ڈھونڈتے تھے تم شہاب احمد زمانے سے |
| نہیں سنتے ہو تم میری - کہا ناں ۔ چھوڑ مت جانا |
| شہاب احمد |
| ۲ جون ۲۰۲۳ |
معلومات