غزل |
نخرے سے جب وہ ہاتھ چُھڑائیں بھلی لگیں |
چَھن چَھن یہ چُوڑیوں کی صَدائیں بھلی لگیں |
دونوں جہان جن کی محبت میں لٹ گئے |
اب بھی وہ شوخ شوخ ادائیں بھلی لگیں |
پُوچھو نہ چَشمِ یار کی جَادُو نِگاہیاں |
نظریں مِلا کے جب وہ چُرائیں بھلی لگیں |
لالی حسیں لبوں پہ رچا کر نفیس وہ |
بوسے ہوا میں شوخ اُڑائیں بھلی لگیں |
خَم دے کے زُلفِ ناز کو ناگن کا رُوپ دیں |
پھر وہ مرے لبوں پہ ڈسائیں بھلی لگیں |
جتنا قریب جاؤں بڑھیں دل فریبیاں |
سانسوں کی مہکی مہکی ہوائیں بھلی لگیں |
اونچی پہن کے ایڑیاں چلتی ہیں ناز سے |
جب ڈگمگا کے ہاتھ بڑھائیں بھلی لگیں |
ہو مشرقی کہ مغربی جیسا ہو پیرہن |
خُوبی سے یُوں بَدن پہ سَجائیں بھلی لگیں |
آثار جب بھی چہرے پہ دیکھیں تھکان کے |
چپکے سے آ کے ہاتھ دبائیں بھلی لگیں |
گویا لبوں کی چاشنی لفظوں میں بہہ چلے |
ہنس ہنس کے جب وہ قصے سنائیں بھلی لگیں |
جب وسوسے حضور کی نیندوں کو لے اُڑیں |
سینے پہ میرے سر کو ٹِکائیں بھلی لگیں |
دھاگے خفی وہ پہلے اداؤں کے باندھ لیں |
پھر پتلیوں کی طرح نچائیں بھلی لگیں |
اپنی خُوشی سے تم نے دِیا دِل شہاب جی |
مرضی وہ اَب لُبھائیں، سَتائیں، بھلی لگیں |
شہاب احمد |
۲۶ اکتوبر ۲۰۱۸ |
معلومات