غزل |
نشتر پکڑ کے خار کو دل سے نکال دوں |
سوچا خیالِ یار کو دل سے نکال دوں |
دل کو مرے بدل دیا اک لالہ زار میں |
اس بے مزہ بہار کو دل سے نکال دوں |
آتش کدہ بنا دیا اس دل کا خاک داں |
کمبخت اس شرار کو دل سے نکال دوں |
سازش سے جس نے خواب خزینے چرا لئے |
اُس دل کے پاسدار کو دل سے نکال دوں |
منزل نہ کوئی راستہ راحت فزا ملے |
جب تک نہ کوئے یار کو دل سے نکال دوں |
اب بھیڑ لگ گئی ہے بہت خواہشات کی |
ایسا کروں دو چار کو دل سے نکال دوں |
قرنوں سے جس پہ آس کی شمعیں نہیں جلیں |
منحوس اِس مزار کو دل سے نکال دوں |
جس پر خوشی کی دھن میں اداسی کے سر لگیں |
بیکار ایسے تار کو دل سے نکال دوں |
جو میرے دُکھ میں مجھ سے ذیادہ فغاں کرے |
کم ظرف غم گسار کو دل سے نکال دوں |
سوچوں پہ اُس نے میری تسلط جما لیا |
کیسے سِتم شعار کو دل سے نکال دوں |
کب تک ملول بیٹھا رہوں گا شہاب جی |
رُو دُھو کے اِس غُبار کو دل سے نکال دوں |
شہاب احمد |
۱۵ فروری ۲۰۲۰ |
معلومات