غزل
کٹھن مسافتیں آسان و مختصر کر دے
عجب نہیں کہ وہ دیوار ہی کو در کر دے
ہمیں تو شمعیں جلانی ہیں اپنے حصے کی
بعید کیا ہے سیہ رات ہی سحر کر دے
کمال شانِ کرم اور بے نیازی ہے
جسے وہ چاہے نوازے جسے صفر کردے
خُدا ہے خلق کو تنہا کبھی نہیں چھوڑے
دَوا نہ ہو تو دُعا ہی کو کار گر کر دے
جو چاہتا ہو کہ کل کو خُدا کرے شفقت
گناہگاروں کو دُنیا میں دَر گُزر کر دے
یہ مشورہ ہے مرے دوست جا محبت سے
مرے رقیب کو انجام کی خبر کر دے
شہاب جام و سُبو سے سبھی کو ملتی ہے
پلائے اوّک سے ساقی تو معتبر کر دے
شہاب احمد
۱۰ دسمبر ۲۰۲۲

0
42