غزل
زندگی ہو گُل و گلُ زار ضروری تو نہیں
شاعری میں لَب و رُخسار ضروری تو نہیں
خُوب ہو خواب میں تسکینِ تمنا ہر شب
رُو بہ رُو رَوز ہو دیدار ضروری تو نہیں
گر محبت ہے تو اظہارِ محبت میں شرم
جشن کے واسطے تہوار ضروری تو نہیں
سب مراسم میں مد و جزر یقیناً آئیں
دل ہمہ وقت ہوں سرشار ضروری تو نہیں
خوبیوں سے جو مرصع ہے سبھی پہلو سے
ہر فسانے میں وہ کردار ضروری تو نہیں
آشنا بھی تو کیا کرتے ہیں سازش چھپ کر
غیر ہی ہوں پسِ دیوار ضروری تو نہیں
عجز مطلوب ہے سجدے میں اِلہ کو مطلق
خلق شب بھر رہے بیدار ضروری تو نہیں
مسکراتے ہو شہاب آتی ہے منہ پر رونق
ورنہ، بیٹھے رہو بیزار، ضروری تو نہیں
شہاب احمد
۹ اپریل ۲۰۲۵

0
36