غزل
مسکراتی تُو گُل بَدن آئے
جیسے کھِلتا حَسیں چمن آئے
آپ پر جاں نثار ہے میری
پَر جبیں پر نہ اِک شِکَن آئے
خُوب دِِلچسپ ہَم سَفر گزری
دَشت آۓ کہیں چمن آئے
ہاتھ مضبوط اُس قدر تھامے
رَاستے جِس قدر کٹھن آئے
وقت بیتے پلٹ نہیں آتا
آدمی سو کرے جتن آئے
اَجنبی اَجنبی لگیں گلیاں
جب بدیسی پلٹ وطن آئے
چُومتا ہوں شہاب شیریں لَب
تا سُخن میں وہ بانکپن آئے
شہاب احمد
۱ ستمبر ۲۰۲۵

0
10