کبھی کبھی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
ترے بغیر مری زندگی ادھوری تھی
مجھے وفا سے محبت سے سرفراز کیا
مری حیات کو چاہت کی چاشنی بخشی
مرا نصیب درخشاں ترے ملن سے ہوا
مری نگاہ میں اب بھی ہے خواب سا منظر
سہاگ رات ہے اور خواب گاہ میں میری
فلک کے پار سے اتری ہے اک پری صورت
بکھر رہا ہے تبسم حسین چہرے پر
چھلک رہی ہے گلابی حسین آنکھوں سے
نفیس ہونٹوں کی رنگت، گلاب سے عارض
حنا کے پھول کھلے ہیں نفیس ہاتھوں پر
سمٹ رہی ہے حیا سے حسین بانہوں میں
کلی کلی پہ چمکتی وہ شبنمی بوندیں
حنائی ہاتھوں کو ہاتھوں میں لے لیا بڑھ کر
ابھی بھی یاد ہیں مجھ کو وہ قیمتی لمحے
الجھ گیا جو میں گیسو سنوارنے بیٹھا
نفیس لب کی حلاوت، مہک پسینے کی
گلاب گالوں کے ہونٹوں نے چھو لئے جس دم
گداز جسم کو بانہوں میں بھر لیا یکدم
سلگ رہی تھی جو آتش بھڑک اٹھی یکسر
تپی وہ پیار کی بھٹی پگھل گئے دونوں
ترے وجود سے راحت وصال کی پاکر
مرے وجود کی تکمیل ہو گئی جیسے
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
حسین خواب کی صورت ہے داستاں اپنی
میں سوچتا ہوں تمھارے بغیر کیا ہوتا
کہ زندگی کے اندھیرے کٹھن مراحل میں
قدم قدم پہ حوادث ہیں لڑکھڑا جاؤں
بڑھا کے ہاتھ محبت سے تھام لیتی ہو
بکھر بھی جاؤں تو جھٹ سے سمیٹ لیتی ہو
میں سوچتا ہوں تمھارے بغیر جیون میں
بکھرنے لگتا تو کیسے سمیٹتا خود کو
تمھاری زلف کی چھاؤں میں چین ہے میرا
قرار آتا ہے دل کو تمھاری بانہوں میں
ترا مزاج شگفتہ بہار کی صورت
تری ہنسی کے شگوفے بہار کے ضامن
مرا غرور بھی تم سے وقار بھی تم سے
مرے کلام کی زینت، خیال کی رونق
ترے وجود کے چندن سے چاند شرمائے
ترے بغیر مری زندگی ادھوری ہے
دعائیں رہتی ہیں اکثر یہی رواں لب پر
تو ساتھ ساتھ ہو جب تک حیات باقی ہے
کڑی وہ ہجر کی راتیں نہ لوٹ کر آئیں
تمھاری بانہوں میں ٹوٹے یہ سانس کی ڈوری
ترے بغیر میری زندگی ادھوری ہے
شہاب میری کہانی نہیں ہے شب بھر کی
یہ داستانِ رفاقت ہے تیس برسوں پر
حسیں بدن سے زیادہ حسین شخصیت
ہزار خوبیاں اس کی ہنر کے سو پہلو
ہزار شعر پہ مبنی غزل لکھوں لیکن
ہزار شعر میں ان کا بیاں نہیں ہو گا
یہ سوچتا ہوں کہ انصاف تو نہیں ہو گا
سو ایک جملے میں سوچا کہ مدعا کہہ دوں
بغیر اس کے جوانی مری ادھوری تھی
حقیقتاً یہ کہانی مری ادھوری تھی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
شہاب احمد
۲۴ مارچ ۲۰۲۱

233