غزل
جی چاہتا ہے آپ سے فرصت میں بات ہو
بیٹھوں قریب آپ کے قربت میں بات ہو
ہاتھوں میں ہاتھ تھام کہیں دور جا پڑیں
دنیا سے دُور پیار کی جنت میں بات ہو
بیٹھیں بدن سُکیڑ کے پھر ایک ساتھ ہم
جِسموں کے بیچ دھیمی حرارت میں بات ہو
دُنیا کے ہر حسین خرابے کو بُھول کر
مہکی گھنیری زلف کی ظلمت میں بات ہو
کلیوں کا ذکر چھیڑ کے ہونٹوں کو چوم لوں
جب رفتہ رفتہ اپنی شرارت میں بات ہو
اک دوسرے کو پیار سے آغوش میں بھریں
شہوت کی آگ تیز ہو حدت میں بات ہو
حسن و کمال آپ کے ہر بزم میں پڑھوں
غزلوں میں صرف آپ کی مدحت میں بات ہو
آنچل میں چاند تارے محبت سے ٹانک دوں
جب بھی شہاب آپ سے خِلوت میں بات ہو
شہاب احمد
۱۸ نومبر ۲۰۲۰

0
86