غزل |
لٹا چکا ہے تُو اپنا وقار جانے دے |
تُو بِک چکا ہے مرے جاں نثار جانے دے |
سپاہ کو نہیں زیبا کہ وہ کریں سازش |
سجا نہ خون سے یہ سبزہ زار جانے دے |
ہزار نسلوں سے تیرے غلام ہیں گرچہ |
ہمارے بچوں کو کر وا گزار جانے دے |
جکڑ لیا ہے معیشت کو جس نے قرضوں سے |
تمھیں عزیز وہی ساہو کار جانے دے |
بندھا ہوا ہے مفادات کی اسیری میں |
سکھا تُو خود کو وفا کے شعار جانے دے |
وطن بنائیں گے ہم سامراج کا مدفن |
بکھر چکا ہے تِرا اقتدار جانے دے |
کہیں فساد تِرے گھر تلک نہ آ پہنچے |
سمیٹ لے تُو یہیں انتشار جانے دے |
مجھے خبر ہے تمھارے رفیق ہیں دشمن |
نہ بات بات پہ اُن کو پکار جانے دے |
تری اَنا پہ اگرچہ یہ چوٹ گہری ہے |
بصد سلوک بصد انکسار جانے دے |
خزاں رسیدہ شجر کو نویدِ تازہ ہو |
بہار آنے کو ہے خوشگوار جانے دے |
جِگر شہاب جلاتا ہے کس لئے آخر |
بڑھا رہا ہے تُو خوں کا فشار جانے دے |
شہاب غصہ بجا ہے تُو حق پہ ہے بیشک |
دِکھا اگرچہ ذرا انکسار جانے دے |
شہاب احمد |
۲۲ جولائی ۲۰۲۲ |
معلومات