غزل
لٹا چکا ہے تُو اپنا وقار جانے دے
تُو بِک چکا ہے مرے جاں نثار جانے دے
سپاہ کو نہیں زیبا کہ وہ کریں سازش
سجا نہ خون سے یہ سبزہ زار جانے دے
ہزار نسلوں سے تیرے غلام ہیں گرچہ
ہمارے بچوں کو کر وا گزار جانے دے
جکڑ لیا ہے معیشت کو جس نے قرضوں سے
تمھیں عزیز وہی ساہو کار جانے دے
بندھا ہوا ہے مفادات کی اسیری میں
سکھا تُو خود کو وفا کے شعار جانے دے
وطن بنائیں گے ہم سامراج کا مدفن
بکھر چکا ہے تِرا اقتدار جانے دے
کہیں فساد تِرے گھر تلک نہ آ پہنچے
سمیٹ لے تُو یہیں انتشار جانے دے
مجھے خبر ہے تمھارے رفیق ہیں دشمن
نہ بات بات پہ اُن کو پکار جانے دے
تری اَنا پہ اگرچہ یہ چوٹ گہری ہے
بصد سلوک بصد انکسار جانے دے
خزاں رسیدہ شجر کو نویدِ تازہ ہو
بہار آنے کو ہے خوشگوار جانے دے
جِگر شہاب جلاتا ہے کس لئے آخر
بڑھا رہا ہے تُو خوں کا فشار جانے دے
شہاب غصہ بجا ہے تُو حق پہ ہے بیشک
دِکھا اگرچہ ذرا انکسار جانے دے
شہاب احمد
۲۲ جولائی ۲۰۲۲

3
94
واہ واہ

جناب آپ کی غزل بہت پسند آئی ۔ اس کی زمین میں غزل لکھنے کی ایک ادنیٰ سی کاوش کی ہے ، امید ہے آپ برا نہیں منائیں گے ۔

جناب ڈاکٹر شاھد مسعود صاحب ۔ آپ نے اتنی عزت بخشی جس کیلئے بندہ نہایت مشکور ہے۔ آپ اپنے اشعار ضرور بانٹیں ۔ تاکہ ہم بھی آپ کے ادبی ذوق سے مستفید ہو سکیں ۔ شکریہ ۔ سلامت رہیں ۔