غزل
مدوا تری آنکھوں سے چھلکتی ہے ابھی بھی
پُروا تری زلفوں سے الجھتی ہے ابھی بھی
شوخی ہے شرارت ہے وہ مستانہ نظر میں
بجلی کی طرح دل پہ لپکتی ہے ابھی بھی
بیٹھی ہو تو گل دستے کی مانند سمٹ کر
چلتی ہو تو ڈالی سی لچکتی ہے ابھی بھی
کھلتے ہوئے رخسار پہ بوسوں کی بدولت
خوشبو تِری سانسوں میں مہکتی ہے ابھی بھی
ہر سمت بکھر جاتی ہے خوشبوۓ مسرت
کونپل جو حسیں لب کی چٹکتی ہے ابھی بھی
شرما کے ترے رُوپ سے چھپ جاتا ہے چندا
چہرے سے تُو جب زلف جھٹکتی ہے ابھی بھی
آواز میں اک سوز ہے لہجے میں حلاوت
بلبل سی تو آنگن میں چہکتی ہے ابھی بھی
بیباک ہے ہر جور و جفا میں تُو ستم گر
اظہار محبت سے جھجکتی ہے ابھی بھی
لکھتا ہوں شہاب آج اُسی شوق سے غزلیں
جس ذوق سے ہر روز وہ سجتی ہے ابھی بھی
شہاب احمد
۳ مارچ ۲۰۲۱

0
134