غزل
کَج کُلاہ کا پَرِ سُرخاب ہُوا کرتے تھے
دوست ہم بھی کبھی نایاب ہُوا کرتے تھے
وَصل ہوتا تو یہ طے تھا کہ فنا ہو جاتے
آپ شعلہ تھے تو ہم آب ہُوا کرتے تھے
کرچیاں چھوڑ گیا ہے وہ مری آنکھوں میں
آپ جس خواب میں ہم خواب ہُوا کرتے تھے
یار، دُنیا کے بکھیڑوں میں نہیں تھے جب تک
پُر سکوں نیند، حَسیں خواب ہُوا کرتے تھے
جی میں آتا ہے وہی دور پلٹ آئے پھر
ظلم کرتے تھے تو غرقاب ہُوا کرتے تھے
یاد کر خُوب زَمانہ وہ شہاب احمد تُو
بُھوک، فَاقے میں بھی شاداب ہُوا کرتے تھے
شہاب احمد
۲۶ ستمبر ۲۰۲۵

0
35