| غزل |
| آپ کا ہر خیال عمدہ ہے |
| بے ادب کی مجال عمدہ ہے |
| سو جہت سے پرکھ کے دیکھ لیا |
| ہر ہنر بے مثال عمدہ ہے |
| ہر خزینے پہ خاص درباں ہے |
| ان کے عارض پہ خال عمدہ ہے |
| خوب سجتے ہیں، اُن پہ پہناوے |
| ذوق عالی، جمال عمدہ ہے |
| مسَت نظریں بتا رہی ہیں مجھے |
| وقت اچھا ہے، فال عمدہ ہے |
| دل گرفتہ ہے زلف میں گرچے |
| مطمئن ہے کمال، عمدہ ہے |
| وہ مرے آس پاس رہتے ہیں |
| ہجر ہو یا وصال عمدہ ہے |
| رات معزول کر دیا، خادم |
| صبح دَم پھر بحال، عمدہ ہے |
| منع کر دے بھلے ہی بوسے سے |
| پر سلیقے سے ٹال عمدہ ہے |
| بن نہ پایا جواب تو بولے |
| خوب پوچھا سوال عمدہ ہے |
| لاکھ ٹکڑے پرکھ کے فرمایا |
| لے پکڑ، دل، سنبھال عمدہ ہے |
| گُل کھلیں خار دار شاخوں پر |
| بات سچی، مثال عمدہ ہے |
| فائدہ کچھ نہیں ہے مجمعے کا |
| دوست اک خوش خصال عمدہ ہے |
| دِل فَسردہ ہو، روح دَرماندہ |
| ایک روشن خیال عمدہ ہے |
| زعمِ ماضی میں کیوں رہے انساں |
| کم درخشاں ہے، حال عمدہ ہے |
| تندرستی کے ساتھ جو گزرے |
| وقت اچھا ہے، سال عمدہ ہے |
| دُور اندیش شخص ہے تاجر |
| دام سستے ہیں، مال عمدہ ہے |
| لوگ محفوظ ہیں مرے شر سے |
| فِِکر اچھی، ملال عمدہ ہے |
| بڑھے جس شرح سے یہ آبادی |
| آپ کیجئے قتال،عمدہ ہے |
| زن مریدی کا فیض ہے یکسر |
| گھر گرہستی خوشحال عمدہ ہے |
| پھر ملیں گے شہاب فرصت سے |
| سوچ پختہ ، خیال عمدہ ہے |
| خوب کہتے ہو تم شہاب احمد |
| ہر غزل ہی کمال عمدہ ہے |
| شہاب احمد |
| ۱۵ دسمبر ۲۰۲۳ |
معلومات