غزل
گداز سینوں کی حدت کے لطف مت پوچھو
سیاہ زلف کی ظلمت کے لطف مت پوچھو
شہد ٹپکتا ہے کھلتی نفیس کلیوں سے
حسین لب کی حلاوت کے لطف مت پوچھو
حنا کے رنگ سے آراستہ ہے اک گلشن
نفیس ہاتھوں کی ندرت کے لطف مت پوچھو
نظر نظر میں ہے برپا نشاط کی محفل
نگاہِ ناز کی شربت کے لطف مت پوچھو
کِھلے کِھلے ہوئے رہتے ہیں ذہن و دل کے چمن
نفیس لوگوں کی صحبت کے لطف مت پوچھو
مٹھاس لہجے میں گھلتی ہے ذکر سے اُن کے
حسین لوگوں کی مدحت کے لطف مت پوچھو
کبھی فراق کی ظلمت کبھی وصال کے دن
شہاب سچ میں محبت کے لطف مت پوچھو
شہاب احمد
۱۴ مئی ۲۰۲۱

0
110