غزل |
ہم پکاریں ہیں اِدھر آپ اُدھر جاتے ہو |
بات بے بات مری جان بگڑ جاتے ہو |
چاند چہرے سے ہیں وابستہ ہماری خوشیاں |
عید ہوتی ہے وہیں آپ جدھر جاتے ہو |
رَوز مشتاق نگاہوں سے بچا کر نظریں |
تم عجب شانِ تغافل سے گزر جاتے ہو |
آپ سے حفظِ وفا کی نہیں اُمید ہمیں |
عہد کرتے ہو، شبِ عہد مُکر جاتے ہو |
دل تمھیں خوب محبت سے سمیٹوں لیکن |
روز تم کوچۂ جاناں میں بکھر جاتے ہو |
گر ہرے پیڑ کے پتے ہو لڑو صر صر سے |
خشک کلیاں تو نہیں ہو کہ بکھر جاتے ہو |
ہم تمھیں پیار سے سمجھائیں، دلیلیں دے کر |
اور اک تم ہو کہ ہر حد ہی سے بڑھ جاتے ہو |
زندگی ہنس کے مسرت سے بلاتی ہے تمھیں |
روٹھ کر اِس سے شہاب آپ کدھر جاتے ہو |
شہاب احمد |
۱۵ اپریل ۲۰۲۴ |
معلومات