غزل
ہم پکاریں ہیں اِدھر آپ اُدھر جاتے ہو
بات بے بات مری جان بگڑ جاتے ہو
چاند چہرے سے ہیں وابستہ ہماری خوشیاں
عید ہوتی ہے وہیں آپ جدھر جاتے ہو
رَوز مشتاق نگاہوں سے بچا کر نظریں
تم عجب شانِ تغافل سے گزر جاتے ہو
آپ سے حفظِ وفا کی نہیں اُمید ہمیں
عہد کرتے ہو، شبِ عہد مُکر جاتے ہو
دل تمھیں خوب محبت سے سمیٹوں لیکن
روز تم کوچۂ جاناں میں بکھر جاتے ہو
گر ہرے پیڑ کے پتے ہو لڑو صر صر سے
خشک کلیاں تو نہیں ہو کہ بکھر جاتے ہو
ہم تمھیں پیار سے سمجھائیں، دلیلیں دے کر
اور اک تم ہو کہ ہر حد ہی سے بڑھ جاتے ہو
زندگی ہنس کے مسرت سے بلاتی ہے تمھیں
روٹھ کر اِس سے شہاب آپ کدھر جاتے ہو
شہاب احمد
۱۵ اپریل ۲۰۲۴

0
3
63
اچھا ہے

شہاب صاحب یہ غزل بھی اچھی ہے مگر اس میں بھی ضمیر کا مسئلہ ہے -
جہاں جہاں آپ کی ضمیر "آپ" ہے (محذوف) وہاں فعل جاتے ہو نہیں جاتے ہیں آئیگا -
جہاں یہ "تم" ہے وہاں جاتے ہو صحیح ہے - تھوڑی محنت سے آپ یہ سقم دور کر کے اپنے کلام کو مزید نکھار سکتے ہیں -

0
ارشد صاحب ۔ تعریف و تنقید کیلئے مشکور ہوں - آپ کی ٹوجہ میرے لئے باعث مسرت ہے ۔ خوش رہیں ۔

0