غزل |
نفیس نوکِ قلم کا یہ شاخسانہ ہے |
یہ زندگی بھی حقیقت نہیں فسانہ ہے |
حدف حسین نگاہوں کا اصل ایماں ہے |
یہ دل غریب فقط مشق کا نشانہ ہے |
حیات آئی سمجھ میں تو اس قدر آئی |
یہ خیر و شر میں کشاکش کا کارخانہ ہے |
شجر کے سینے میں یہ چھید بدنما لیکن |
بڑے حسین پرندے کا آشیانہ ہے |
جمے گی خوب ہماری کبھی جو مل بیٹھے |
مزاج خیر سے اُن کا بھی شاعرانہ ہے |
وہ چاہتے ہیں کہ ہم تم حریف بن جائیں |
عزیز چال رقیبوں کی شاطرانہ ہے |
اُلجھنے لگتے ہو پل پل کو جھاڑ کر دامن |
حضور آپ سے برسوں سے دوستانہ ہے |
بھلا کے تلخیاں ماضی کی تم بڑھو آگے |
شہاب مشورہ میرا یہ مخلصانہ ہے |
شہاب احمد |
۲۲ فروری ۲۰۲۲ |
معلومات