غزل |
چوڑیوں کا چھن چھنا چھن بولنا اچھا لگا |
دست و بازو پر سجا رنگِ حنا اچھا لگا |
برق چمکی اور سمٹ کر ایک قالب ہو گئے |
چاہتوں کی بارشوں میں بھیگنا اچھا لگا |
بعد بارش وہ ٹھٹھرنے کا بہانہ خوب تھا |
ایک کمبل میں سمٹ کر بیٹھنا اچھا لگا |
خلوتِ جاناں میں آتے گل ہوئے شرم و حیا |
پنکھڑی سے لب کھلے تو چومنا اچھا لگا |
وائے رے قسمت کہ ساقی مہرباں ہم پر ہوا |
مد بھری آنکھوں سے پینا جھومنا اچھا لگا |
اپنی دانش میں غضب تیراک تھے ہم بھی مگر |
ہنستی آنکھوں کے بھنور میں ڈوبنا اچھا لگا |
پہلے نخرے سے نظر انداز کر دینا ترا |
پھر جھروکے سے پلٹ کر جھانکنا اچھا لگا |
محوِ زیبائش ہو تم اور محو حیرت آئینے |
آئینوں کو بھی تمھارا سامنا اچھا لگا |
گرچہ سینہ چیرتا ہے وہ جدائی کا سماں |
وقتِ رخصت پھر پلٹ کر دیکھنا اچھا لگا |
حکم جب کیجئے شہاب احمد ہمہ تن گوش ہے |
آپ نے جو بھی کہا ۔ جو کچھ سنا ۔ اچھا لگا |
شہاب احمد |
۲۹ اگست ۲۰۱۷ |
معلومات