| غزل |
| تب دوریوں کے موسم تھے ہجرتوں نے مارا |
| اب قربتیں ہیں حاصل دِل داریوں نے مارا |
| سب ٹھیک ٹھاک تھا تو کیوں عاشقی کی سوجھی |
| اس نا بکار دل کو سر مستیوں نے مارا |
| اسباب سب خوشی کا زادِ سفر میں باندھا |
| کچھ دلبروں نے لوٹا، کچھ حاسدوں نے مارا |
| کرچہ یقیں بہت تھا ان بازووں پہ ہم کو |
| کچھ حادثوں نے توڑا، کچھ وسوسوں نے مارا |
| اخلاص کا وفا کا پیکر ہوں میں مجسم |
| سو خامیاں ہیں بیشک، دو خوبیوں نے مارا |
| وہ حادثہ نہیں تھا تدبیر تھی کسی کی |
| کچھ دوستوں نے گھیرا، پھر دشمنوں نے مارا |
| دل تنگ تھا اگرچہ پُر شور بستیوں سے |
| پیشِ نظر ہے صحرا، خاموشیوں نے مارا |
| تھوڑی سہولتوں میں بھرپور زندگی تھی |
| جینا کیا مکدر آسائشوں نے مارا |
| تقدیر سے شکایت کیسی شہاب احمد |
| رب نے بہت نوازا، بس خواہشوں نے مارا |
| کل تک شہاب تم بھی آویزاں تھے فلک پر |
| تب رفعتوں نے مارا، اب پستیوں نے مارا |
| شہاب احمد |
| ۱۶ جولائی ۲۰۲۲ |
معلومات