غزل |
دلیلیں تو وکیلوں سے بھی پائیدار دیتی ہے |
مباحث جیت کر خود مجھ سے بازی ہار دیتی ہے |
اِسی ایثار کے صدقے سے اُونچا ہے مِرا شِملا |
مِری سجنی تو بازی جیت کر بھی ہار دیتی ہے |
بہت مضبوط ہے عورت اسے کمزور مت سمجھیں |
خوشی سے ہنستے ہنستے جان و دل سب وار دیتی ہے |
جسے باندی سمجھ رکھا ہے تم نے بندی خانے کی |
وہ ماں بچوں پہ تیرے اپنی خوشیاں وار دیتی ہے |
نہ چھیڑو شیرنی نگران ہو جب اپنے کنبے کی |
پلٹ کر وار کرتی ہے غضب کی مار دیتی ہے |
جو ماں آغوش میں اپنی ہمیں دیتی ہے بچپن میں |
وہ تربیت ہمیں شخصیت و کردار دیتی ہے |
روش بے جا محبت کی اِنہیں کاہل نہ کر ڈالے |
تو لقمے توڑ کر منہ میں اِنہیں تیار دیتی ہے |
یہ قدرت اپنی فطرت میں ہے کتنی مہرباں سو چیں |
جو غمگیں شام سے پہلے ہمیں غم خوار دیتی ہے |
یہ سچائی اٹل ہے زندگی کو موت لازم ہے |
اگر رستوں سے بچ نکلو تو منزل مار دیتی ہے |
نشے کی خُو ہمیشہ سے بُری دشمن ہے آدم کی |
جکڑ کر اپنے پنجوں میں یہ ظالم مار دیتی ہے |
یہ عورت ہی کا ایثار و محبت ہے شہاب احمد |
جو بازی جیت کر ساجن کی خاطر ہار دیتی ہے |
شہاب احمد |
۱ مئی ۳۰۱۹ |
معلومات