غزل
دوستو ۔ ریت پرانی یہ نبھاتے جاتے
آتے جاتے کبھی دو چار سناتے جاتے
جان پیاری ہے صنم آپ سے پیاری تو نہیں
ایک موہوم اشارے پہ لٹاتے جاتے
اب میں اغیار سے کیا دل کے فسانے چھیڑوں
آپ آ جاتے تو کچھ غم ہی بٹاتے جاتے
یہ بھی اچھا ہے کہ تم خوش ہو بچھڑ کر ہم سے
ورنہ بیکار میں ہم جان گھپاتے جاتے
زندگی موت نے مہلت نہیں بخشی ورنہ
چند دن اور ابھی ناز اٹھاتے جاتے
چکنی مٹی سے یہ شہکار بنے گا آخر
آپ جس شوق سے ہیں چاک گھماتے جاتے
شوخ نظروں کا تقدس جو نہ مانع ہوتا
جام و مینا ابھی قدموں میں گراتے جاتے
مست نظروں سے شہاب اس نے پلٹ کر دیکھا
بچ گئی جان ابھی جان سے جاتے جاتے
شہاب احمد
۵ جولائی ۲۰۲۱

156