ستمبر کی بہار |
دھول اڑتی تھی چار سو یکساں |
زرد پتے تھے ہر طرف رقصاں |
بیسواں روز تھا ستمبر کا |
لیکن اک حجرۂ رفاقت میں |
وصل کی اک حسیں مسہری پر |
نار اک یوں سمٹ کے بیٹھی تھی |
جیسے رکھا ہو کوئی گل دستہ |
اک سراپا تھا رنگ و خوشبو کا |
تازہ پھولوں کی نازکی لے کر |
دست و پا پر حنا رچائے ہوئے |
سرخ گھونگھٹ کی اوٹ میں چھپ کر |
میرے گھر میں بہار اتری تھی |
حجرۂ وصل میں مرے آتے |
مسکراتے ہوئے کہا اس نے |
منتظر ہوں میں آپ کی کب سے |
بند کمرے میں ڈر رہی تھی میں |
دیکھیۓ پاؤں سرد ہوتے ہیں |
شکر ہے آپ آ گئے آخر |
پاؤں چھوتے ہوئے کہا میں نے |
تم تو سردی سے برف ہوتی ہو |
لاؤ کمبل لپیٹ لو خود پر |
معذرت چاہتا ہوں غلطی کی |
دیر اب پھر کبھی نہیں ہو گی |
مسکراتے ہوئے کہا میں نے |
اور بانہوں میں بھر لیا اس کو |
ہنستی آنکھوں سے دیکھ کر مجھ کو |
مسکراتے لبوں سے پھر بولی |
بال جُوڑے نے میرے جکڑے ہیں |
بند بالوں کے آپ سلجھا دیں |
بند کھولے تو زلف لہرائی |
ہاتھ زلفوں سے خودبخود الجھے |
ہونٹ ہونٹوں نے خودبخود چومے |
ہاتھ پاؤں تو برف جیسے تھے |
تپ رہے تھے گلاب سے عارض |
اس کے ہاتھوں کی نرم لرزش سے |
جسم و جاں میں رواں تھی موسیقی |
رفتہ رفتہ کھلے جو بند قبا |
چار سو تھا جمال کا چندن |
عقل حیراں تھی چشم خیرە تھی |
ضبط کے سارے بند ٹوٹ گئے |
قربتوں کا طلسم جب چھایا |
چاہتوں کے گلاب کھلنے لگے |
رقص کرتا ہوا جنوں آیا |
اجنبیت برہنہ پا بھاگی |
پھر وہ بولی شگفتہ لہجے میں |
ہچکچاتے ہوۓ کہا اس نے |
روشنی سے ہمیں حیا آۓ |
آپ یکسر چراغ گل کر دیں |
کیا پری؟ کیا جنون؟ تھے عریاں |
ایک مستی فضا میں تھی رقصاں |
جذبۂ شوق کی حرارت سے |
موم کی طرح دل پگھلنے لگے |
یوں بدن عرقِ جاں میں ڈوب گئے |
ایسے لپٹے پگھل کے ایک ہوئے |
ہونٹ ہونٹوں سے جڑ گئے ایسے |
جیسے صدیوں کی آشنائی تھی |
میرے گھر میں بہار آئی تھی |
بیسواں روز تھا ستمبر کا |
چھپ کے گھونگھٹ کی اوٹ میں اس دن |
میری زہرہ نگار آئی تھی |
ہائے پت جھڑ تھی کیا بہاروں سی |
میرے گھر میں بہار آئی تھی |
شہاب احمد |
۱۶ ستمبر ۲۰۱۳ |
معلومات