غزل |
حسین چہرہ اگرچہ کتاب جیسا ہے |
نظر میں لطف پرانی شراب جیسا ہے |
روش روش پہ کھلیں باغ، پھول قرباں ہوں |
ترا مزاج بھی بہتی چناب جیسا ہے |
سیاہ رات کے دامن میں چاندنی بھر دے |
ترا وجود حسیں ماہِ تاب جیسا ہے |
شبِ وصال ہے قربت ہے ماہ و مے بھی ہیں |
یقین کیجئے ماحول خواب جیسا ہے |
غزل شہاب شگفتہ نفیس کہتے ہو |
سماعتوں پہ یہ لہجہ گلاب جیسا ہے |
شہاب احمد |
۲۶ مئی ۲۰۲۲ |
معلومات