| غزل |
| دل کو شعلے دکھا کے مت جاؤ |
| ایسے دامن چھڑا کے مت جاؤ |
| شوخ مہکی لطیف سانسوں سے |
| دل میں طوفاں اٹھا کے مت جاؤ |
| جذب کرنے دو لمس کی راحت |
| آج بانہوں میں آ کے مت جاؤ |
| قرب نازک، گداز سینوں سے |
| یوں اچانک بڑھا کے مت جاؤ |
| چومنے دو نفیس کلیوں کو |
| لب لبوں سے ِِہٹا کے مت جاؤ |
| شربتی نیم باز آنکھوں سے |
| جام مے کے پلا کے مت جاؤ |
| لطف لینے دو نرم ہاتھوں کے |
| جانِ من یوں چھڑا کے مت جاؤ |
| ریشمی ریشمی حسیں زلفیں |
| یوں ہوا میں اڑا کے مت جاؤ |
| ہنستی ہنستی حسین لگتی ہو |
| ایسے غصہ دکھا کے مت جاؤ |
| خوبصورت وصال کے لمحے |
| جانِ جاناں گنوا کے مت جاؤ |
| ساتھ دیکھے تھے ہم نے یہ سپنے |
| اپنے سپنے جلا کے مت جاؤ |
| کھلتے کھلتے گلاب عارض کے |
| ان پہ شبنم سجا کے مت جاؤ |
| سوچ لو لوٹنا پڑے گا کل |
| کشتیاں سب جلا کے مت جاؤ |
| وسوسے چاٹ جائیں گے دل کو |
| دیپ سارے بجھا کے مت جاؤ |
| مر نہ جائے شہاب صدمے سے |
| رنج اتنے بڑھا کے مت جاؤ |
| شہاب احمد |
| ۱۴ اکتوبر ۲۰۲۱ |
معلومات